Saturday, July 28, 2018

انتخابات مسائل اور حل



انتخابات: مسائل اور حل

سب سے پہلے موجودہ طریقہ کار کے مسائل کا ذکر ضروری ہے۔
بنیادی طور پہ موجودہ طریقہ کار میں ووٹ ڈالنے کا عمل پیچیدہ ہے ایک ووٹر کو ووٹ ڈالنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اور پھر ووٹوں کی گنتی کے عمل میں دھاندلی اور غلطی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔
جب لاکھوں افراد صرف انتخابی عمل کو چلانے کے درکار ہیں اور سبھی کی صلاحیت ایک جیسی نہیں۔ پریزائیڈنگ افسر پہ بھاری ذمہ داریاں ہیں۔
موجودہ طریقہ کار انتہائی مہنگا اور اس کے لیے زیادہ افرادی قوت درکار ہے۔
خاص طور پہ انتخابی عملہ کی تربیت مشکل تر اور مہنگی ہو جاتی ہے اگر انتخابی عمل پیچیدہ ہو جس کا ذکر الیکشن کمیشن نے بھی کیا کہ الیکشن ۲۰۱۸  میں ۲۱ ارب میں سے سب سے زیادہ خرچ انتخابی عملہ کی تربیت پہ خرچ ہوئے ۔
یہ بات درست ہے کہ انتخابی عمل پیچیدہ صرف اس لیے ہے کہ اسے شفاف بنایا جائے اور اعتراضات کی صورت میں پڑتال ہو سکے۔
عجیب بات یہ ہے ہر کسی کو پولنگ سٹیشن پہ چار جگہ انگوٹھے کا نشان لگا نا ہے۔ اور اپنے ہاتھ سے  بیلٹ پیپر پہ مہر بھی لگا نی ہے لیکن انگوٹھے کا نشان اس پہ نہ آئے ۔۔۔۔ مطلب بیلٹ پیپر کو انگوٹھے کی مدد کے بغیر پکڑنا ہو گا۔ یاد رہے ہر حلقے میں ہزاروں بزرگ ووٹر ہیں  جو کانپتے ہاتھوں سے  ووٹ ڈال کے جاتے ہیں۔ الیکشن ۲۰۱۸ میں اوسط چھ ہزار ووٹ منسوخ ہوئے۔ سولہ لاکھ اڑتیس ہزار ووٹ منسوخ کیے گئے۔
لوگ سادہ حل کی بات کرتے ہیں کہ کیوں نہ ای۔ووٹنگ یا کمپیوٹرائزڈ ووٹنگ کرا لی جائے۔ تو عرض یہ ہے کہ یورپی یونین اور بہت سے ترقی یافتہ مملک ای۔ووٹنگ شروع کر کے واپس پیپر ووٹنگ پہ آ گئےہیں۔ اور یورپی یونین نے اس پہ ایک رپورٹ بھی مرتب کی ہے۔ جس کی چیدہ باتیں یہ ہیں
·      ای۔ووٹنگ میں ہیکنگ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
·      ہیکنگ کی صورت میں لوگوں کا نظام پہ اعتبار ختم ہو جائے گا۔
·      جمہوریت سے زیادہ جمہوریت پہ عوام الناس کا اعتبار ضروری ہے۔
·      لہٰذا پیپر ووٹنگ کو آسان اور شفاف بنانے کا سوچنا ہو گا۔
ہمارے  انتخابی عمل کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1.   ووٹر کی تصدیق
2.    بیلیٹ پیپر کاحصول اور ووٹ ڈالنا
3.    ووٹوں کی گنتی ، پولنگ سٹیشن پہ  فارم۔۴۵ اور فارم۔۴۶ کا اندراج ۔فوٹوکاپی کی بجائے اکثر پریزائیڈنگ افسر ۱۰ سے ا۲ کاپیاں بناتے ہیں۔اب اگر ۳۰ امیدوار ہوں تین سے چار فارم۔۴۵ بن جاتے ہیں ۔ پھر ان کی دس سے بارہ کاپیاں لکھ کے بنانا جبکہ باقی پولنگ کا عملہ اسے پریزائیڈنگ افسر کا کام سمجھے بہت وقت اور احتیاط طلب ہے۔
4.    سارے پولنگ سٹیشنز سے وصول کردہ نتائج کی روشنی  میں صوبائی یا قومی حلقے کے نتیجے کا اعلان فارم۔۴۷ کی شکل میں
حل
اوپر بیان کیے گئے  انتخاب کے چاروں اجزاء میں سے  دوسرا جز وہ ہے جس پہ دنیا متفق ہے کہ اسے ایسے ہی رہنا چاہیے مطلب  ووٹر کو بیلیٹ پیپر جاری کیا جائے اور وہ ووٹ کاسٹ کرے۔
رہی بات پہلے نقطے کی اور آخری دو نقطوں کی تو دنیا میں یہی  حصے ہیں جن میں ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا ووٹر کی تصدیق کو بہت آسان  کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان بھر میں بائیو میٹرک کی بنیاد پہ موبائیل سم جاری کی جارہی ہیں۔ یہ مشین  کم قیمت ہے اور ایک بار کا خرچہ ہے۔ اس کے ساتھ  دو عدد  ڈسپلے سکرین بھی چاہیے ہوں گی تاکہ پولنگ افسر اور پولنگ ایجنٹ ایک وقت میں ووٹر کی تفصیلات دیکھ سکیں۔ اس میں اگر کیمرہ شامل کر لیا جائے  اور ووٹر کے  فنگر پرنٹ دیتے وقت تصویر لے لی جائے تو ریکارڈ  بھی محفوظ ہو جائے گا۔  اگر کچھ ووٹرز کی تصدیق میں مسئلہ ہو تو اسے الگ  باکس میں ڈال دیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی کوئی حل سوچا جا سکتا ہے
  اس طرح پولنگ سٹیشن کے باہر سیاسی جماعتوں کو پرچی جاری کرنے   کے لیے کیمپ نہیں لگانا ہو گا اور پولنگ کا عملہ بھی کم چاہیے ہو گا۔
پولنگ کے اختتام پہ بیلٹ باکس کو سیل کیا جائے ۔ دنیا میں اس کے لیے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے الیکٹرانکس پہ ورانٹی اسٹکر دیکھا ہو گا جسے اتارنے پہ وہ خراب تو ہو جاتا ہے لیکن اصل حالت میں  اتارا نہیں جا سکتا ۔ الیکشن کمیشن ہر پارٹی اور آزاد امیدوار کو ایسی ورانٹی سیل بنوانے اور رجسٹر کرانے کی اجازت دے۔ پولنگ کے اختتام پہ پولنگ کا عملہ اپنی سیل دستخط کے ساتھ لگائے اور پولنگ ایجنٹ اپنی سیل دستخط کے ساتھ۔
آپ نے  باہر کے ملک میں الیکشن کے دنوں میں پولنگ کے عملہ کو بیلٹ باکس لے کے جاتے دیکھا ہو گا۔ بلکل ایسے ہی بیلٹ باکس ریٹرننگ افسر کے آفس میں سی ٹی وی   کی موجودگی میں محفوظ کیا جائے۔
الیکشن کمیشن امیدوار یا اس کےنمائندہ کو اگلے دن  ریٹرننگ افسر کے دفتر میں مدعو کرے ۔اور اس کی موجودگی میں گنتی کی جائے ۔

No comments:

Post a Comment